✅ *صحیح حدیث* ✅
🔹 *فضائل الصحابة* 🔹
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بخشش طلب کریں، یہ لوگ انہیں گالیاں (برا، بھلا کہتے ہیں) دیتے ہیں.
📚 *[ مصنف ابن ابی شیبہ : 32414، فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل : 14، مستدرک الحاكم : 3719 | إسناده : صحيح ]*
ثقہ تابعی میمون بن مہران رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا : تم تین باتوں کو چھوڑ دو.
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کرنا.
(2) نجومیوں والا کلام کرنا.
(3) مسئلہ تقدیر میں بحث کرنا.
📚 *[ فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل : 19| إسناده : صحيح ]*
✅ *_صحیح حدیث_* ✅
🔸 *فضائل الصحابة* 🔸
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو برا مت کہو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ !اگر تم میں سے کو ئی شخص اُحد پہا ڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو وہ ( صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) میں سے کسی ایک کے دیے ہو ئے مد بلکہ اس کے آدھے کے برابر بھی ( اجر ) نہیں پاسکتا ۔ "
📚 *[ صحیح مسلم : 6487 صحيح بخاری : 3673 ]*
سيدنا عبدالله بن أبي أوفى رضي الله عنه سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گلہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے خالد! تم ایک بدری کو رنجیدہ کیوں کرتے ہو؟ اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر دو بھر بھی ان کے ایک عمل (کے اجر و ثواب) کو نہی پہنچ سکتے. سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! وہ مجھ سے نکتہ چینی کرتے ہیں، میں تو بس اسکا جواب دیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : خالد کو رنج مت دینا، کیونکہ وہ "سیف اللہ" (اللہ کی تلوار) ہے جس اللہ تعالٰی نے کفار پر مسلط کیا ہے.
📚 *[ فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل : 13، صحیح ابن حبان : 7091 | إسناده : صحیح ]*
✅ *صحیح حدیث*✅
🔹 *فضائل سیدنا محبوبنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ*🔹
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہو گا اسے «باب الريان» سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہو گا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ ان دروازوں ( میں سے کسی ایک دروازہ ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔
📚 *[ صحيح بخاری : 1897، صحیح مسلم : 2371 ]*
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا ( کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے ) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اللہ نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ ابوبکر آپ روئیے مت۔ اپنی صحبت اور اپنی دولت کے ذریعہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے آپ ہی ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن ( جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتی ) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔
📚 *[ صحيح بخاری : 466، صحیح مسلم : 6170 ]*
اسی طرح کے اور میسج پانے کے لئے نیچے دیے گئے لنک کو کلک کریں.
authenticmessages.blogspot.com